دنیا کی تاریخی جنگ 60 افراد نے 60 ہزار کے لشکر کو دھول چٹا دی ۔
آج میں آپ کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ صحا بہ اکرام کی جماعت میں سے ایک بہادر اور جنگجوں کمانڈر صحابی رسول حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی کفار کے لشکر سے جنگ کا مختصر سہ تذکرہ کرونگا۔ یقینا اس داستان سے آپکے ایمان میں ضرور اضافہ ہوگا۔ اور ان محبان اسلام کے لیے دل سے دعا کیجئے جنہوں نے اپنے پاکیزہ خون سے اسلام کی چمن کی آبیاری کرگئے رضی اللہ عنہم اجمعین۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ وہ بہادر صحابی رسول ہے۔ جن کی بہادری کی وجہ سے اللہ تعالی نے انکو{ سیف اللہ } کا لقب دیا۔ اسکی معنی ہے اللہ کی تلوار۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ 60 افراد کی جماعت کے ساتھ کفار کی 60٫000 ساٹھ ہزار کے لشکر کا مقابلہ کیا جو پوری طرح سازوسامان اور جنگی ہتھیاروں سے لیس تھے۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ جب مقابلے کے لئے نکلے تو دشمن کو للکارتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ یہ خیال ہرگز مت کرنا کہ ہم تعداد میں بہت کم ہے خدا کی قسم ہمارا ایک آدمی تیرے ایک ہزار کے لشکر کے مقابلہ کے لئے نکلا ہے ۔ اور ہمارا باقی ماندہ تمام لشکر اس پیاسے سے زیادہ اس جنگ کے لیے بے چین و بے قرار ہے جو ٹھنڈے پانی کے لئے سخت دھوپ اور صحرا میں بے چین ہوتا ہے۔
دشمن کے سپہ سالار کی طرف سے یہ آواز آئی خالد بن ولید میں تمہیں عقلمند سمجھتا تھا ۔ اور تمہارے مقابلے کے لئے بڑے بڑے دلیروں کو میدان جنگ میں اترنے کا ارادہ رکھتا تھا مگر میں تم سے یہ کیا سن رہا ہوں کہ تم ہمارے مقابلے کے لیے صرف 60 آدمی لے کر ہمارا مقابلہ کرنے نکلے ہو۔ اور تمہیں معلوم ہے کہ ہم سادات بنی غسا ن ہیں۔ اب اگر میں ان 60،000 ہزار سواروں کے ساتھ تم پر حملہ کر دوں تو یہ ذرا سی دیر میں تمہاری پوری لشکر کی تکا بوٹی کر کے رکھ دیں گے اور تمہارے میں سے کوئی شخص بھی نہ بچ سکے گا ۔ لو اب میں حملہ کرتا ہوں یہ کہہ کر اس نے اپنے کفار کے لشکر کو حملے کا حکم دیا یہ ساٹھ ہزار سوار اپنے سپہ سالار کا حکم پاتے ہوئے مسلمانوں کے لشکر پر ٹوٹ پڑے۔ کفار کے لشکر نے چاروں طرف سے حملہ کردیا۔
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے ثابت قدمی سے اپنا کام شروع کر دیا دونوں طرف سے لڑائی کے شعلے نکل پڑے ۔ آدمیوں کے شور اوربہادروں کے دلدوز آوازں کے سوا کوئی چیز سنائی نہیں دیتی تھی تلواریں اپنی پوری قوتوں کے ساتھ ساتھ پڑھتی تھی اور چھنا چھن کے آوازوں کے ساتھ پیچھے لوٹ جاتی تھیں۔ مسلمانوں اور کافروں نے یہ یقین کر لیا تھا کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے تمام ساتھی شہید ہونگے مسلمان تکبیروں کے نعرے بلند کر رہے تھے اور اپنے مسلمان بھائیوں کی وجہ سےقلق اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔ ادھر رومیوں کی زبان پر یہ تھا اگر آج ہم نے ان شہسواروں کو قتل کردیا تو تمام عربوں کو ہم یقیناّ مار بھگا دیں گے اور ہماری فتح یقینی ہے۔ لڑائی لمبی ہوتی گئی یہاں تک کہ سورج بہادروں کے سروں پر آکر تماشہ کرنے لگا۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ اللہ جل جلالہ وعم نوالہ حضرت خالد بن ولید، حضرت زبیر بن عوام ، حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر الصدیق ، حضرت فضل بن عباس،حضرت ضرار بن ازور، اور حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ، کو جزائے خیر عنایت کریں ۔
کہ میں نے ان چھ ۶ اشخاص کو دیکھا کہ ان کے بازو ملے ہوتے تھے، مونڈھے سے مونڈھا لگ رہا تھا۔ کوئی ایک دوسرے سے الگ ہونا نہیں جانتا تھا اور اپنے ساتھی کی حفاظت کے لئے تمام کے تمام سینہ سپر ہو کر لڑ رہے تھے ۔
لڑائی کے شعلے بھڑک رہے تھے، چنگاریاں اڑ اڑ کر آگ لگا رہی تھی، خون چاروں طرف سے بہہ رہا تھا، سوار زین سے کٹ کٹ کر گر رہے تھے ۔ نیزے شیروں کے سینے توڑ توڑ کر دل کے پار ہورہے تھے۔ موت لقے بنا بنا کر کھارہی تھی، تیروں کی بوچھاڑ ہورہی تھی ،تلواریں چمک چمک کر بجلی کی طرح کوند رہی تھی ، باز وست ہو گئے تھے، ہاتھ سن ہورہے تھے ، سواروں کے مونڈہوں کی ہڈیاں، اور ان کا مغز شل ہوگیا تھا۔
مگر سستی اور تھکاوٹ کی بجائے کوشش پر کوشش ہورہی تھی ، میدان کارزار میں [هل من مزید ] کا نعرہ بلند ہورہا تھا ۔ یہ چھ ۶ جانبازان اسلام نہایت پھرتی اور چالاکی سے کافروں کو قتل کر ر ہے تھے، میں بھی بڑھ بڑھ کر ان کے ساتھ حملے کر رہا تھا، اور کہہ رہا تھا کہ جو مصیبت ان پر نازل ہوگی وہ مجھ تک بھی پہنچے گی حتی کہ حضرت خالد بن ولید نے زور سے آواز دی اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابیو! یہی میدان کار زار میدان حشر ہے،خالد کی جو تمنا تھی وہ پوری ہوگئی۔
میدان کا رازر ہماری طرف سے آتش کدہ بن گیا۔ لوگ ہجوم کر کے ہماری جانب آنے لگے اور ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا ۔ حضرت خالد بن ولید ، اور حضرت مرقال بن ہاشم رضی اللہ عنہ بہ پیادہ ہو گئے اور حملے پر حملے کرنے لگے۔ حضرت زبیر بن عوام اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ بهی بہ پیادہ اور لوگوں کا ان پر ہجوم دیکھ کر ان کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہوئے ، اور ان کے حملہ آوروں کے حملے روک روک کر یہ آوازیں لگانا شروع کیں ۔ کتو! دور ہو جاؤ ، اور ان اصحاب کے سامنے سے ہٹ جاؤ!
ہم ہیں شہسواران اسلام، یہ زبیر بن عوام اور میں ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاچا کا بیٹا فضل بن عباس ۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم! حضرت فضل بن عباس کے وہ حملے جو آپ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے حملہ آوروں پر آپ
کے بچانےکے لئے کر رہے تھے، میں گن رہا تھا، آپ نے بیسں ۲۰ حملے کئے اور ہر حملے میں ایک ایک سوار کو گراتے رہے حتی کہ آپ رضی اللہ عنہ کے حملہ آور بھاگ پڑے اور حضرت خالد بن ولید اور حضرت مرقال بن ہاشم رومیوں کے ایک ایک گھوڑے کو پکڑ پکڑ کر سوار ہو گئے۔ اور پھر ایک اسطرح سے زور دار حملہ کیا کہ گویا وہ ابھی تک لڑے ہی نہیں تھے ۔ اور اب تازہ دم ہی حملہ کررہے ہیں ۔
تمام دن لڑائی نے یہی رنگ اختیار کیا ، اور آخرکار خون کی سرخ سرخ ندیاں دیکھ دیکھ کے سورج بھی زرد پڑنے لگ گیا اور قریب تھا کہ
مغرب کے ارغوانی دریا میں کود پڑے ۔ حملہ آور اللہ کے شیروں نے ایک جان توڑ حملہ کیا اور روباه مزاج نصرانیوں پر ٹوٹ پڑے۔
حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے مسلمانوں کو زور زور سے آوزائیں دیں اور فرمایا اصحاب رسول اللہ اللہ تعالی تمہیں جزائے خیر عنایت کریں، اپنے مسلمان بھائیوں کی خبر لو۔ میری رائے میں حضرت خالد بن ولید اور ان کے تمام ساتھی شہید ہو چکے ہیں، بڑھو بڑھو! اور نصرانیوں پر حملہ کر دو۔ تمام مسلمانوں نے اس پر لبیک کہا اورحملے کے لئے تیار ہو گئے ۔
مگر حضرت ابوسفیان صخر بن حرب نے کہا [ ایهاالا میرا انشاء الله مسلمانوں کو فتح ہوگی ] اور عنقریب آپ انہیں بخیر و عافیت واپس آتا دیکھیں گے ۔ ابھی جلدی نہ کریں۔ آپ نے اس پر مطلق توجہ نہ فرمائی اور حملہ کے لئے تیار ہو گئے ۔ آپ کو اس وقت سخت صدمہ اور فکر ہورہا تھا، اور اپنے ان مسلمان بھائیوں کی وجہ سے جو جنگ میں شریک تھے، آپ رو رہے تھے۔ قریب تھا کہ جناب حملہ کے متعلق احکام نافز کریں کہ نعرہ تکبیر و تہلیل کی آوازیں گنجنے لگیں۔ اللہ اکبر کے نعروں سے فضا آسمانی گونج اٹھی اشھد ان لا الہ الااللہ وحدہ لا شریک لہ وان محمدا عبدہ ورسولہ۔ کی صدائیں آنے لگیں اور انہی کے ساتھ ساتھ نصرانی عرب شکست کھا کر بھاگتے ہوئے اس طرح نظر آنے لگے کہ گویا آسمان سے کسی چیخنے والے نے انہیں چیخ چیخ کر بھگادیا ہے۔
اسی طرح ہر دور میں فتح اور کامیابی اللہ تعالی کی طرف سے ملتی ہیں اہل ایمان کو کیونکہ اللہ رب العزت کا وعدہ ہے اگر تم اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے تو میں تمہیں دنیا و آخرت کی کامیابی سے ہمکنار کرونگا، حال ہی میں جیسا کہ دنیا نے دیکھا افغانستان کی موجوده صورتحال کو کہ اللہ تعالی نے کس طرح ایک سپر پاور کہلانے والی کفر کی طاقت کو نیست ونابود کر دیا ایک کمزور ترین ملک افغانستان سے اس وقعے میں ہم سب کے لیے نصیحت ہے۔
آخر میں دعا گو ہوں اللہ رب العزت کی بارگاہ میں کہ ہم سب کو کامل ایمان والا بنا دے اور ایمان پر حسن خاتمہ نصیب کرے آمین ثم آمین یارب العالمين۔